Balochistan May Ghair Mashroot Pakistani Leader - Dr. Muhammed Ajmal Niazi
بلوچستان کے نواب غوث بخش باروزئی کے ساتھ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ملاقات ہوئی تب وہ بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ کے منصب سے فارغ ہوئے تھے۔ اتنے ملائم اور شفاف خوبصورت چہرے والا سیاستدان کم کم دکھا گیا ہے۔ وہ بہت شائستہ مزاج تھے۔ محترم فصیح اقبال نے ان کے ساتھ میرا تعارف کرایا میں انہیں نہیں جانتا تھا‘ مگر ان کی شخصیت میں ایک نامعلوم مگر مانوس اپنائیت لکھی ہوئی تھی۔ وہ مجھے جانتے تھے۔ نوائے وقت میں میرے کالموں کا بڑی محبت سے ذکر کیا ان کا سارا گھرانہ نوائے وقتیہ ہے۔ بہت ذوق و شوق کے آدمی ہیں۔ فصیح اقبال پاکستان اور نوائے وقت کے عاشق تھے۔ وہ تب زندہ تھے اور اکثر بلوچستان سے لاہور نظریہ پاکستان کی تقریبات میں آیا کرتے تھے۔ بہت جذبے سے باتیں کرتے بڑے دلیر سچے صحافی اور دانشور تھے۔ انہوں نے بارزوئی صاحب کی بہت دل سے تعریف کی غوث بخش باروزئی نے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر بڑی عزت بنائی۔ فصیح اقبال چاہتے تھے انہیں گورنر بلوچستان بنایا جائے۔ فصیح صاحب کا خیال تھا کہ بلوچستان کی آدھی سے زیادہ آبادی پختون بلوچوں کی ہے۔ بلوچستان کا گورنر پختون خوا کا نہ ہو ایک سچا پاکستانی اور بلوچی پختون ہو۔ اس لحاظ سے نواب غوث بخش باروزئی بہترین انتخاب ہوتے۔ گورنر بلوچستان اچکزئی صاحب کے لئے نواب صاحب کا خیال اچھا ہے۔ نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بنایا گیا مگر ایک بڑے اور اچھے انسان کو حکومت کا موقعہ نہیں دیا جا رہا۔
بلوچستان کے لیڈروں کے لئے پاکستان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ شکایتوں کی بات کرتے ہیں اور شرطیں بہت پیش کرتے ہیں مگر نواب غوث بخش بارزوئی غیر مشروط پاکستانی ہیں وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو بہت کچھ دینا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں بدلنے والوں کو ٹھیک نہیں سمجھتے مگر ان کے لئے لوٹا کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک دفعہ نواز شریف یوم تکبیر کے موقع پر کہا تھا۔ کہ آپ سیاسی آوارہ گردوں کو اپنی پارٹی میں نہ لیں شاید پارٹی لیڈر اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ نوازشریف کی مسلم لیگ ن میں مسلم لیگ ق کے لوگ تو لئے گئے ہیں۔
جنرل مشرف کے قریبی ساتھی بھی مسلم لیگ ن میں بہت بڑے عہدوں پر ہیں۔ جنرل مشرف کے جانے پر دل و جان سے آنسو بہانے والی ماروی میمن کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لئے ٹکٹ دیا گیا اور مریم نواز کے لئے قرضہ سکیم میں ساتھی بنا دیا گیا۔
جنرل مشرف کے وزیر اور قریبی ساتھی امیر مقام کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا۔ اسے لوگوں نے مسترد کر دیا۔ وہ ہار گیا مگر نوازشریف نے اسے اپنا مشیر خاص بنا لیا۔ شاید بدنام اور ناکام لوگوں کے بغیر حکومت چلتی نہیں ہے۔
بلوچستان کے ظفراللہ جمالی کو وزیراعظم پاکستان چودھری شجاعت کی کوششوں سے بنایا گیا۔ اس کے لئے بہت خوشی ہوئی مگر جو کچھ ہم نے سوچا تھا نہ ہوا۔ کم از کم یہ تو ہوتا کہ بلوچستان میں پاکستان کے لئے مصنوعی شکایتیں تو دور ہو جاتیں۔ بلوچستان کے وہ سب لوگ جو باتیں بناتے ہیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے لئے کچھ نہ کیا۔ بس دینی حکومت کی فکر کرتے رہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے یہ عہدے ایک سیاسی رشوت سے زیادہ نہ تھے۔ اب یہ شکایت بھی نہیں کہ بلوچستان سے کوئی وزیراعظم نہیں لیا گیا۔
جب جنرل مشرف نے ظفراللہ جمالی کو ہٹانا چاہا تو انہوں نے بلوچ سرداروں کے انداز میں بیانات تو دئیے۔ مگر پھر گھبرا گئے۔ میرا خیال تھا کہ اگر جمالی صاحب ڈٹ جاتے اور جنرل مشرف کے سامنے کھڑے ہو جاتے تو پوری اسمبلی اور پوری قوم جمالی صاحب کا ساتھ دیتی۔ جو ادھورے فیصلے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ثابت قدمی اور وکلاء کی دلیرانہ جدوجہد کے نتیجے میں ہوئے وہ زیادہ اچھی طرح اور بہت پہلے ظفر اللہ جمالی کی وجہ سے ہو جاتے۔ یہ بات میں نے ڈاکٹر قدیر کے لئے بھی کہی تھی۔ وہ جنرل مشرف کے کہنے پر معافی نہ مانگتے۔ یہ قوم سے معافی نہ تھی بلکہ جنرل مشرف نے سمجھا کہ ان سے معافی مانگی گئی ہے۔ ڈاکٹر قدیر تو محسن پاکستان ہیں۔ ان کے بعد میں بیانات میں غصہ نظر آتا ہے۔ بہادری نظر نہیں آتی۔ نواب غوث بخش بارزوئی کا بھی خیال ہے کہ جمالی صاحب کو ڈٹ جانا چاہئے تھا۔ وہ بعد میں نواز شریف کی سیاسی سرپرستی کے بعد ان سے ملنے نوائے وقت بھی آئے تھے مگر اب وقت گزر چکا تھا۔ سیاسی آوارہ گردی کی بجائے سیاسی ثابت قدمی اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے نعمت بن سکتی ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں نے ’’غنیمت کارکردگی‘‘ بھی نہیں دکھائی۔
نواب غوث بخش بارزوئی کی شخصیت میں ایک اچھائی اور برائی محسوس ہوتی ہے جسے سیاسی اپنائیت اور عظمت کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے عظیم والد کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ اصولوں والے آدمی تھے۔ عام زندگی اور سیاسی زندگی میں فرق نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کبھی قومی معاملات میں ذاتی فائدے کو نہیں آنے دیا۔ انہوں نے وزیراعظم بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ وقت سے پہلے الیکشن نہ کراؤ 14 اگست تک اپنی حکومت کو قائم رکھو۔ انہوں نے یہ بات نہ مانی اور 14 اگست تک زندہ ہی نہ رہے۔
زیارت میں قائداعظم کی آخری دنوں کی رہائش گاہ پر حملے کے لئے بارزوئی صاحب سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کے ساتھ نہیں ہے۔ صرف گورننس کی نالائقی اور ایڈمنسٹریشن کی کمزوری تھی۔ اگر غیر سردار وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ناکام ہوا تو یہ سرداروں کی حمایت ہو گی۔ ایک جملہ ان کی طرف سے بہت جذباتی اور نظریاتی ہے۔ انہوں نے کہا خدانخواستہ خدانخواستہ بلوچستان کو الگ کیا گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے مگر بلوچستان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے صرف اپنی سیاست چمکانے کے سارے سلسلے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے لئے تو حکمران بھی احتجاج کر چکے ہیں۔ بات صرف احتجاج تک ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدیں کھلی ہیں۔ ویزا نہیں ہے۔ بھارتیوں کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بھارتی سرحد بھی اہم ہے مگر یہ سرحد اس سے بھی خطرناک ہے۔ دونوں طرف بھارت ہے۔
بلوچستان کے لیڈروں کے لئے پاکستان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ شکایتوں کی بات کرتے ہیں اور شرطیں بہت پیش کرتے ہیں مگر نواب غوث بخش بارزوئی غیر مشروط پاکستانی ہیں وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو بہت کچھ دینا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں بدلنے والوں کو ٹھیک نہیں سمجھتے مگر ان کے لئے لوٹا کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے ایک دفعہ نواز شریف یوم تکبیر کے موقع پر کہا تھا۔ کہ آپ سیاسی آوارہ گردوں کو اپنی پارٹی میں نہ لیں شاید پارٹی لیڈر اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ نوازشریف کی مسلم لیگ ن میں مسلم لیگ ق کے لوگ تو لئے گئے ہیں۔
جنرل مشرف کے قریبی ساتھی بھی مسلم لیگ ن میں بہت بڑے عہدوں پر ہیں۔ جنرل مشرف کے جانے پر دل و جان سے آنسو بہانے والی ماروی میمن کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لئے ٹکٹ دیا گیا اور مریم نواز کے لئے قرضہ سکیم میں ساتھی بنا دیا گیا۔
جنرل مشرف کے وزیر اور قریبی ساتھی امیر مقام کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا۔ اسے لوگوں نے مسترد کر دیا۔ وہ ہار گیا مگر نوازشریف نے اسے اپنا مشیر خاص بنا لیا۔ شاید بدنام اور ناکام لوگوں کے بغیر حکومت چلتی نہیں ہے۔
بلوچستان کے ظفراللہ جمالی کو وزیراعظم پاکستان چودھری شجاعت کی کوششوں سے بنایا گیا۔ اس کے لئے بہت خوشی ہوئی مگر جو کچھ ہم نے سوچا تھا نہ ہوا۔ کم از کم یہ تو ہوتا کہ بلوچستان میں پاکستان کے لئے مصنوعی شکایتیں تو دور ہو جاتیں۔ بلوچستان کے وہ سب لوگ جو باتیں بناتے ہیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے لئے کچھ نہ کیا۔ بس دینی حکومت کی فکر کرتے رہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے یہ عہدے ایک سیاسی رشوت سے زیادہ نہ تھے۔ اب یہ شکایت بھی نہیں کہ بلوچستان سے کوئی وزیراعظم نہیں لیا گیا۔
جب جنرل مشرف نے ظفراللہ جمالی کو ہٹانا چاہا تو انہوں نے بلوچ سرداروں کے انداز میں بیانات تو دئیے۔ مگر پھر گھبرا گئے۔ میرا خیال تھا کہ اگر جمالی صاحب ڈٹ جاتے اور جنرل مشرف کے سامنے کھڑے ہو جاتے تو پوری اسمبلی اور پوری قوم جمالی صاحب کا ساتھ دیتی۔ جو ادھورے فیصلے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ثابت قدمی اور وکلاء کی دلیرانہ جدوجہد کے نتیجے میں ہوئے وہ زیادہ اچھی طرح اور بہت پہلے ظفر اللہ جمالی کی وجہ سے ہو جاتے۔ یہ بات میں نے ڈاکٹر قدیر کے لئے بھی کہی تھی۔ وہ جنرل مشرف کے کہنے پر معافی نہ مانگتے۔ یہ قوم سے معافی نہ تھی بلکہ جنرل مشرف نے سمجھا کہ ان سے معافی مانگی گئی ہے۔ ڈاکٹر قدیر تو محسن پاکستان ہیں۔ ان کے بعد میں بیانات میں غصہ نظر آتا ہے۔ بہادری نظر نہیں آتی۔ نواب غوث بخش بارزوئی کا بھی خیال ہے کہ جمالی صاحب کو ڈٹ جانا چاہئے تھا۔ وہ بعد میں نواز شریف کی سیاسی سرپرستی کے بعد ان سے ملنے نوائے وقت بھی آئے تھے مگر اب وقت گزر چکا تھا۔ سیاسی آوارہ گردی کی بجائے سیاسی ثابت قدمی اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے نعمت بن سکتی ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں نے ’’غنیمت کارکردگی‘‘ بھی نہیں دکھائی۔
نواب غوث بخش بارزوئی کی شخصیت میں ایک اچھائی اور برائی محسوس ہوتی ہے جسے سیاسی اپنائیت اور عظمت کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے عظیم والد کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ اصولوں والے آدمی تھے۔ عام زندگی اور سیاسی زندگی میں فرق نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کبھی قومی معاملات میں ذاتی فائدے کو نہیں آنے دیا۔ انہوں نے وزیراعظم بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ وقت سے پہلے الیکشن نہ کراؤ 14 اگست تک اپنی حکومت کو قائم رکھو۔ انہوں نے یہ بات نہ مانی اور 14 اگست تک زندہ ہی نہ رہے۔
زیارت میں قائداعظم کی آخری دنوں کی رہائش گاہ پر حملے کے لئے بارزوئی صاحب سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کے ساتھ نہیں ہے۔ صرف گورننس کی نالائقی اور ایڈمنسٹریشن کی کمزوری تھی۔ اگر غیر سردار وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ناکام ہوا تو یہ سرداروں کی حمایت ہو گی۔ ایک جملہ ان کی طرف سے بہت جذباتی اور نظریاتی ہے۔ انہوں نے کہا خدانخواستہ خدانخواستہ بلوچستان کو الگ کیا گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے مگر بلوچستان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے صرف اپنی سیاست چمکانے کے سارے سلسلے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے لئے تو حکمران بھی احتجاج کر چکے ہیں۔ بات صرف احتجاج تک ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدیں کھلی ہیں۔ ویزا نہیں ہے۔ بھارتیوں کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بھارتی سرحد بھی اہم ہے مگر یہ سرحد اس سے بھی خطرناک ہے۔ دونوں طرف بھارت ہے۔
Balochistan May Ghair Mashroot Pakistani Leader - Dr. Muhammed Ajmal Niazi
Reviewed by Ahmed
on
01:05
Rating:
No comments: